اشاعتیں

ایام طفلی

تھے ديار نو زمین و آسماں میرے لیے 

وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لئے 

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لئے 

حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے 

درد طفلي میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے 

شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے 

تکتے رہنا ہائے وہ پہروں تلک سوئے قمر 

وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر 

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر 

اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر 

آنکھ وقف‌ دید تھی لب مائل گفتار تھا 

دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا 

یہ مختصر اور خوبصورت نظم علامہ اقبال کی کتاب بانگ درا کا حصہ ہے اور اقبال نے اس نظم میں انسان کے بچپن کی کیفیات کا احاطہ کیا ہے- بچپن کی زندگی کی بے فکری اور معصومیت کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے جب ہمیں علم نہیں ہوتا کہ دنیا میں ہماری اپنی چھوٹی سی دنیا کے علاوہ بھی کوئی دنیا ہے- جب لگتا ہے کہ ماں کی آغوش ہی سارا جہان ہے- جب ہر چیز نئی محسوس ہوتی ہے- جب کوئی بھی درد اور تکلیف توجہ بانٹ کر بھلا دی جاتی ہے- جب آسمان پر چاند کو دیکھنا اچھا لگتا ہے- جب ارد گرد موجود لوگوں سے ہر شے کے بارے میں من چاہے سوال پوچھے جاتے ہیں اور جوابات پا کر انہی کو سچ سمجھا جاتا ہے اور حیرتوں کی ایک دنیا آباد رہتی ہے- جب دیکھنے کو دل کرتا ہے، جب بولنے کو دل کرتا ہے اور جب سوال سوال ہی سوال ہوتے ہیں-

علامہ اقبال نے اس مختصر نظم میں بچپن کی زندگی کی بہت سی کیفیات کو خوبصورتی سے بیان کر دیا اور یہ نظم بچوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہم سب کے لئے ہے جو اس عہد کو پیچھے چھوڑ آئے اور اب اس کی معصومیت کو یاد کرتے اور پہچانتے ہیں اور اپنے سامنے موجود آج کے بچوں کے بچپن میں اس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. 

ایک تبصرہ شائع کریں

Cookie Consent
We serve cookies on this site to analyze traffic, remember your preferences, and optimize your experience.
Oops!
It seems there is something wrong with your internet connection. Please connect to the internet and start browsing again.
AdBlock Detected!
We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.
Site is Blocked
Sorry! This site is not available in your country.