پرانی فلموں میں امیر ہیروئن کے گھر گرینڈ پیانو ضرور ہوتا تھا جسے غریب ہیرو نہ صرف بجانا جانتا تھا بلکہ بجا بجا کر ساتھ ہی بیوفائی کے شکووں بھرے گیت گاتا تھا, جسے صرف ہیروئن سمجھ کر ساڑھی کا پلو مڑوڑتی تھی جبکہ باقی کراؤڈ احمق گھامڑ بنا سنتا تھا۔
پرانی فلموں میں ہاتھ سے لکھے خط ای میل سے بھی جدید ہوتے تھے کیونکہ خط کھولنے کے بعد لکھنے والے کی خط میں تصویر آتی اور وہ خود سناتا کیا لکھا ہے۔
پرانی فلموں میں جونہی ہیروئین کو ہیرو سے پیار ہوتا، قریب ھی موجود بکرے کے لیلے کی شامت (موجیں پڑھا جائے) آ جاتی اور ہیروئین اسکو کٹ کے جپھی پا کر چومنا شروع کردیتی۔
پرانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے پیار محبت کا اظہار گانوں کے دوران دو پھول یا درختوں پر بیٹھے طوطا مینا کیا کرتے تھے۔
پرانی فلموں میں درخت کو گلے لگانا، محبوب کو گلے لگانا ہوتا تھا۔
پرانی فلموں میں ہیرو کو دیکھتے ہی اچھی بھلی ہیروئن کو سانس چڑھ جاتی تھی۔
پرانی فلموں میں ڈاکٹر اتنے لاٸق ہوا کرتے تھے دیکھتے ہی ہارٹ اٹیک یا کینسر کا پتہ لگا لیتے تھے وہ بھی بغیر کسی ٹیسٹ کے اور سونے پہ سہاگہ مرنے کی ڈیٹ بھی دے دیتے تھے۔
پرانی فلموں میں بری خبر سننے کے بعد ہاتھ میں پکڑی چیز لازمی گر جاتی تھی۔
پرانی فلموں میں جب ہیروئن گھر چھوڑ کے جاتی، اس کے جملہ ملبوسات، جوتے، ہینڈ بیگ، جیولری، میک اپ کا سامان کرشماتی طور پر ایک سوٹ کیس میں فٹ ہو جاتا تھے۔
پرانی فلموں میں گانے اور رقص کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اگر ولن کو کوئ چھیڑ خانی کرنی بھی ہوتی، یا لڑکی کے باپ کو بے عزت کرنا ہوتا، تو گانا اور رقص ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا۔
پرانی فلموں میں ہیروئن روڈ پہ ناچ گانا کرتی اور لوگ ایک دائرہ بناکے اسکو انتہائ تہذیب سے دیکھتے تھے۔
ہیروئن کی سہیلیوں کو پتا ہوتا تھا کہ ہیروئن نے کونسا گانا گانا ہے، وہ ہمیشہ کورس ڈانس پریکٹس کر کے گھر سے آتی تھیں۔
ہیرو کے دوست کو دنیا کا کوئی کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اس کا کام سارا دن ویلا ہیرو کے ساتھ پھرنا ہوتا تھا۔
پرانی فلموں کے کلائیمکس میں ہیرو کی ماں اور محبوبہ ہمیشہ ولن کے قبضے میں بندھی حالت میں ملتی تھیں اور ہیرو کی ساری جدو جہد پر پانی پھیر دیتی تھیں۔
عدالت کا فیصلہ ہیرو کے خلاف آنے کے باوجود ہم سب کو پتہ ہوتا تھا کہ آخری وقت میں ہیرو زخمی حالت میں گھسٹتاہوا عدالت کا دروازہ کھول کر کہے گا کہ اصل ثبوت وہ اب لے کر آیا ہے۔
پرانی ڈراونی فلموں میں شہر سے بہت دور ایک بنگلے میں بتی جل رہی ہوتی تھی مگر بوڑھے چوکیدار نے ہمیشہ لالٹین ہی پکڑی ہوتی تھی۔ نا جانے ایسے بنگلے میں وہ اکیلا کیا کرتا تھا اور اسے تنخواہ کون دیتا تھا۔
کچھ بھی ہو، اس دور کی فلمیں تب بھی لاجواب تھیں اور آج بھی لا جواب ہیں۔